گُریز شب سے، سحر سے کلام رکھتے تھے
کبھی وہ دن تھے کہ زُلفوں میں شام رکھتے تھے
تمھارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے
ہمیں بھی گھیر لیا گھر زعم نے تو کھُلا
کُچھ اور لوگ بھی اِ س میں قیام رکھتے تھے
یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی
ہُوا تھی ساتھ تو خُوشبو مقام رکھتے تھے
نجانے کون سی رُت میں بھچڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے
وہ آ تو جاتا کبھی ، ہم تو اُس کے رستوں پر
دئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے
نوشی گیلانی
Post a Comment