مجھے بھی میری طرح ، چاہنے آئے
بوجھل بوجھل ہیں آنکھیں لوری سنا کر
کوئی تو ہو جو مجھے ، سلانے آئے
مدت سے لا پتہ ہو ں میں خود سے
کوئی تو ہو جو مجھے خود سے ملانے آئے
کب ہنسی تھی آخری با ر کچھ یاد نہیں
کوئی تو ہو جو مجھے پھر سے ، ہنسانے آئے
پتھروں کے اس مکان کو گھر کیسے کہوں
کوئی تو ہو جو مکان کو گھر بنانے آئے
میرے باغیچے کے سبھی پھول مرجھا گئے
کوئی تو ہو جو آنگن میں گل کھلانے آئے
ہو ا میں اک اداسی ، اک ویرانی سی ہے
کوئی تو ہو جو فضا کو مہکانے آئے
میں جو ہواؤں کی مسافر ہوا کرتی تھی
کوئی تو ہو جو مجھے اڑنا سکھانے آئے
حسرتیں ہیں گمشدہ ، گمنام سے خواب ہیں
کوئی تو ہو جو میرے خوابوں سے ملانے آئے
ہیں پاؤ ں بھی شل او ر تنہا چلا نہیں جاتا
کوئی تو ہو جو چل کر سا تھ نبھانے آئے
عرصہ ہوا میرے کانوں کو کوئی نغمہ سنے ہوئے
کوئی تو ہو جو مجھے گیت سنا نے آئے
دل کی زمین خشک ، بنجر ہے صحرا کی طرح
کوئی تو ہو جو بارش کی بو ندیں گر انے آئے
روٹھیں کس سے اور کس سے خفا ہوں
کوئی تو ہو جو ہمیں منانے آئے
محبتوں میں شمار میرے سواء کو ئی نہ ہو
کوئی تو ہو جو یہ حق جتانے آئے
علاج زخموں کا ، خود سے ممکن نہیں عمارہ
کوئی تو ہو جو مرہم زخموں پہ لگانے آئے
عمارہ شفیق (مکہ مکرمہ)
Post a Comment