اَپنی آنکھوں کے سمندر میں اُتر جانے دے
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مرجانے دے
اے نئے دوست میں سمجھوں گا تجھے بھی اپنا
پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے
آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی
کوئی آنسو میرے دامن پہ بکھر جانے دے
زخم کتنے تیری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو
سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے
زندگی! میں نے اسے کیسے پرویا تھا نہ پوچھ
ہار ٹوٹا ہے تو موتی بھی بکھر جانے دے
ان اندھیروں سے ہی سورج کبھی نکلے گا
رات کے سائے ذرا اور نکھر جانے دے
#copied +Mr. Addictor
Post a Comment