حبس بڑھ جائے اس قدر
سکون ملے نہ کسی نگر
لگے جیسے قیامت کا منظر
لوگ بھٹکیں ادھر اُدھر
پھر اچانک افق پہ کالے بادل چھا جائیں
طوفان سی برکھا برسا جائیں
خوشی سی دوڑ جائے ہر طرف
ہر چیز اس میں نہا جائے
پر اک کمرے میں کہیں
موجود ھو اک ہستی
جسے فرق پڑے نہ برکھا سے
نہ گرمی سردی نہ ھوا سے
اس کا سیلن زدہ کمرہ
کرے اس کے دل کا حال بیاں
کمرے میں موجود اک کھڑکی
باندھی ھو جہاں اس نے ٹکٹکی
اور سوچ اک جگہ پہ ھو اٹکی
یہ بارش جب بھی آتی ھے
کئی سوغاتیں ساتھ میں لاتی ھے
وہ لوگ جو بیچ سفر چھوڑ گئے
ہر رشتے سے منہ موڑ گئے
زندگی کیا کیا غم سہتی ھے
تب یہ بارش چپکے سے کہتی ھے
تمہیں لگا تم بھول جاؤ گے
یہ دل کسی اور طرف لگاؤ گے
پر ھے یہ ممکن کہاں
دیکھو کتنے باقی ہیں نشاں
اور تمہاری مرجھائی ھوئی صورت
کرے بیاں تیرے دل کی حالت
یہ حبس تو تمہارے اندر ھے
اور برکھا تمہارا ہی اک منظر ھے
عیناعینی ۔۔
Post a Comment