میں نے کہا محبّت تو اذیت ہے .
تم کونسی راحت کے منتظر هو .
یہ تو فقط نظر کا دھوکہ ہے .
ایک شفاف اور سفید دھوکہ .
جو ہم کرتے ہیں اعتبار کے نام پر .
تم کن خوشیوں کے طلب گار هو .
که یہاں تو دکھ اور آنسوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں .
زندگی تو کسی کی بھی یہاں رکتی نہیں .
تم کہتے هو محبّت میں سکون ملے گا .
اے میرے ہمسفر!!
یہ بس تمہاری خوش فہمیاں ہیں .
تمہیں پتہ ہے که جب محبّت پر نفرت غالب آجاے تو .
یہ اپنی وقعت اور وجود کھو دیتی ہے .
یہ محض ایک سایے کی مانند رہ جاتی ہے .
جو دن چڑھتے ساتھ ھوتا ہے .
اور رات کے اندھیرے میں کوسوں دور .
سنو جاناں!!
میں پھر بھی تم سے محبّت کرتی ھوں .
کہ اپنے اس نرم و نازک وجود کو پاش ہوتے دیکھنا چاہتی ھوں .
میں خود کو تمہارے ہاتھوں سمٹتے دیکھنا چاہتی ہوں .
میں تم پر اعتبار کرنا چاہتی ھوں .
میں اب بھی تم سے محبّت کرنا چاہتی ھوں ...
تحریر .. عینی اسد
Post a Comment