کہیں چاند راہوں میں کھو گیا، کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی
میں چراغ وہ بھی بجھا ہوا، میری رات کیسے چمک گئی
-
میری داستاں کا عروج تھا تیری نرم پلکوں کی چھاؤں میں
میرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تیری آنکھ کیسے جھپک گئی
-
کبھی ہم ملے بھی تو کیا ملے، وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے، نہ کبھی تمہاری جھجک گئی
-
تجھے بھول جانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں
تیری یاد شاخِ گلاب ہے جو ہوا چلی تو لچک گئی
بشیر بدر
Post a Comment