اپنے آنسو رول رہا تھا
وہ آنکھوں سے بول رہا تھا
تیرے بعد مرے کمرے میں
ماتم کا ماحول رہا تھا
ہم ہی چلنے سے عاری تھے
وہ تو رستے کھول رہا تھا
جان! تمہاری نگری اندر
میں کتنا بے مول رہا تھا
وہ بھی کیسے اپنی چُپ سے
میری چُپ کو تول رہا تھا
تم کتنے انمول ہوئے ہو
میں کتنا انمول رہا تھا
رات ، مری بے چین آنکھوں میں
چاند اداسی گھول رہا تھا
یاد ہے؟ تیری خاطر میرے
ہاتھوں میں کشکول رہا تھا
زین شکیل
Post a Comment