(دِلِ زیر لب - وردِ تنہائی )
۔۔۔۔۔
وہ بے حد خاص تھا لیکن مثالِ عام رہتا تھا
بہت ہنس مکھ سا بیلی تھا، بڑا دِلبر سا انساں تھا
مری ہر بات سے واقف،مرے حالات سے واقف
مری ہر بات کو سُنتا تسلی اور توجہ سے
بہت اپنائیت سے پھر وہ اچھے مشورے دیتا
مری بے ربط باتوں کو وہی ترتیب دیتا تھا
زمانے میں نبھانے کامجھے وہ حوصلہ دیتا
اُسے جب بھی کبھی دیکھا ، ہمیشہ مسکراتا تھا
عجب انسان تھا جو سخت مشکل میں بھی ہنستا تھا
کبھی بھی اپنے بارے میں کسی کو نہ بتاتا تھا
ہاں! تنہائی میں زیرِ لب وہ شاید گنگناتا تھا
مرے دریافت کرنے پر، وہ ہنس کر ٹال دیتا تھا
وہ پُر اسرار سا انساں، نجانے اِس طرح کیوں تھا
مگرجیسا بھی تھا لیکن، مجھے اُس کی ضرورت تھی
ضرورت تھی کہ الفت تھی یا پھر شاید محبت تھی
۔۔۔
پھر اِک دِن سردیوں کی شام میں ہم ساتھ تھے کچھ پل
الاؤ کی تپش بھی تھی مگر خنکی بلا کی تھی
وہ آنکھیں موند کر، چادر لیے، تکیے پہ سر رکھے
مجھے سُن کر، تسلی دے کے جانے کی اجازت دی
مگر اُس پل، وہاں رُک کر ، مرا دِل تھا ، اُسے دیکھوں
مرا دِل تھا اُسے کہہ دوں، مرے جذبوں سے ناواقف!
مری سوچوں سے بہرہ ور! مری چاہت سے ناواقف!
اے میرے مہرباں، محسن! مجھے تم سے محبت ہے!
۔۔۔
فضا خاموش تھی، خنکی، تپش ، مسحور سا منظر!
یہاں دھڑکن کی شورش، اور وہاں مدھر سی سرگوشی!!!
وہی مدہوش کرتی گنگناہٹ، "وردِ تنہائی"!!!
"مری سوچوں ناواقف، مرے جذبوں سے ناواقف
جسے میرا پتہ نہ تھا، مجھے اُس سے محبت تھی"
۔۔۔
Post a Comment