بھلائیں گے اسے
لیکن
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ
ابھی رستے میں ہے وہ موج
کہ ساحل تک نہیں پہنچی
جو گیلی ریت کی چادر پہ بکھرے
اس کے قدموں کے نشاں
وارفتگی سے چوم کر معدوم کر ڈالے
ابھی پت جھڑ کا سایہ اس قدر گہرا نہیں اترا
کہ دل کی سوکھتی ٹہنی سے
اس کی آرزو کا آخری پتا بھی جھڑ جائے
ابھی تک میں نے اس احساس کی مٹھی نہیں کھولی
کہ جس میں قید کر رکھی ہے اس کے لمس کی حدت
ابھی دوری کی نشترکاریوں کے زخم بھرنے دو
زرا سا وقت کے مرہم کو اپنا کام کرنے دو
نواحِ جاں سے اس کے قرب کا احساس جانے دو
میرے کاندھے سے اس کے آنسوؤں کی باس جانے دو
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ
بھلائیں گے اسے
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Post a Comment