کیسا چپ چپ تھا مرے عزم سفر کو دیکھ کر
ڈر گیا میں اخری بار اپنے گھر کو دیکھ کر
میرے سر اس چار دیواری کے کتنے قرض تھے
سر جھکا جاتا تھا ان دیوار و در کو دیکھ کر
شہر سے رخصت کے منظر کا بھی اپنا کرب تھا
دل لہو روتا تھا اک اک رہ گزر کو دیکھ کر
کیا عمارت تھی کہ جس کو وقت غارت کر گیا
انکھ بھر آئی ہے خواہش کے کھنڈر کو دیکھ کر
جو ملا پہلے وہی بھوکی نظر میں جچ گیا
میں نے کب چاہا تھا اس کو، شہر بھر کو دیکھ کر
خود غرض دل کی خواہش جان لے لے گی ریاض
خود پہ رحم آتا ہے اپنے ہمسفر کو دیکھ کر
Post a Comment