خود سے روٹھوں تو کئی روز نہ خود سے بولوں
خود سے روٹھوں تو کئی روز نہ خود سے بولوں
پھر کسی درد کی دیوار سے لگ کر رو لوں
تو سمندر ہے تو پھر اپنی سخاوت بھی دکھا
کیا ضروری ہے کہ میں پیاس کا دامن کھولوں
میں کہ اک صبر کا صحرا نظر آتا ہوں تجھے
تُو جو چاہے تو ترے واسطے دریا رو لوں
اور معیار رفاقت کے ہیں ایسا بھی نہیں
جو محبت سے ملے ساتھ اسی کے ہولوں
خود کو عمروں سے مقفل کئے بیٹھا ہوں فراز
وہ کبھی آئے تو خلوت کدۂ جاں کھولوں
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget
Post a Comment