جو دل میں ہے، آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا
خود کو کبھی خوابوں کے حوالے نہیں کرنا
اِس عمر میں خوش فہمیاں اچھی نہیں ہوتیں
اِس عمر کو وعدوں کے حوالے نہیں کرنا
تم اصل سے بچھڑا ہوا اک خواب ہو شاید
اس خواب کو یادوں کے حوالے نہیں کرنا
اب اپنے ٹھکانے ہی پہ رہتا نہیں کوئی
پیغام پرندوں کے حوالے نہیں کرنا
دنیا بھی تو پاتال سے باہر کا سفر ہے
منزل کبھی رستوں کے حوالے نہیں کرنا
اب کے جو مسافت ہمیں درپیش ہے اس میں
کچھ بھی تو سرابوں کے حوالے نہیں کرنا
جس آگ سے روشن ہوا احساس کا آنگن
اس آگ کو اشکوں کے حوالے نہیں کرنا
دیکھا نہیں اس فقر نے کیا کر دیا تم کو
اس فقر کو شاہوں کے حوالے نہیں کرنا
اِس معرکۂ عشق میں جو حال ہو میرا
لیکن مجھے لوگوں کے حوالے نہیں کرنا
Post a Comment