تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا
بےنیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تو نے گھبرا کے میرا نام نہ پوچھا ہوتا
تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو
تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا
یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب وہوا کی باتیں
اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پرکھا ہوتا
یونہی بے وجہ ٹھٹھکنے کی ضرورت کیا تھی
دم رخصت اگر یاد نہ آیا ہوتا
تیرا غماز بنا خود تیرا اندازِ خرام
دل نہ سنبھلا تھا تو قدموں کو سنبھالا ہوتا
اپنے بدلے میری تصویر نظر آجاتی
تُو نے اُس وقت اگر آئینہ دیکھا ہوتا
حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جُدا ہونے کا
ورنہ کاجل تیری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا
Post a Comment